ادھر دیکھو ' سنو ' آج میں بتانے لگی ہوں
ہاں میں ٹوٹ کے تجھے اب چاہنے لگی ہوں
حسین آنکھوں پہ رکھ کے اپنے جلتے ہونٹ
میں ساری مے ان کی پی جانے لگی ہوں
شرارت سے چمکتے رہتے ہیں یہ جو دو نگینے
میں ان سے اکثر نظریں چرانے لگی ہوں
تھک سی گئی ہوں بہت اس آبلہء پائی سے
سینے پہ سر رکھ کے تیرے سستانے لگی ہوں
مدہوش کئے رکھتی ہے تیری مسحورکن خوشبو
اس لیے تو چلتے چلتے لڑکھڑانے لگی ہوں
جب بھی آ جاتے ہو تم میرے تصور میں جاناں
میں آپ ہی آپ مست غزل گنگنانے لگی ہوں
جب سے محیط ہوئی تیری حصارِ دعا میں
اس سارے عالم میں اب چھانے لگی ہوں
اچھا لگتا ہے اور بھی مجھ سے روٹھا روٹھا سا
تبھی تو اے دیپ خوب اسے ستانے لگی ہوں

No comments:
Post a Comment